مقداریہ سہل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سانچہ:Public finance مقداریہ سہل[1][2] ایک غیر روایتی مالی حکمت عملی ہے جو مرکزی مصرف معیشت میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب روایتی مالی حکمت عملی موثر ثابت نہ ہو رہی ہو۔ مرکزی مصرف مالی اثاثے خریدتے ہیں تاکہ ایک معلوم مقدار کا پیسہ معیشت میں ڈالا جائے۔ یہ روایتی حکمت عملی سے ممیز ہے جس میں حکومتی بند خریدے یا فروخت کیے جاتے ہیں تاکہ شرح سود معینہ نشانہ قدر پر رہے۔

2007 سے شروع ہونے والے زبردست مالی بحران[3] نے امریکا اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان ممالک کی معیشتوں کے بالکل بیٹھ جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔ ڈر اس بات کا بھی ہے کہ لوگوں کا کاغذی سکّہ رائج الوقت سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے جیسا کہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں فیڈرل ریزرو، انگلستان میں بینک آف انگلینڈ اور یورپ میں یورپی مرکزی بینک نے کاغذی سکّہ رائج الوقت بڑی مقدار میں چھاپ کر دوسرے بینکوں سے مال خریدنا شروع کر دیا ہے تا کہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور معیشت رواں رہے۔ اس حکمت عملی کو "مقداری تسہیل" [4][5] کا نام دیا گیا ہے۔ امریکا میں پہلی مقداری تسہیل نومبر 2008 سے مئی 2010 تک جاری رہی۔ دوسری مقداری تسہیل نومبر 2010 سے جون 2011 تک جاری رہی۔ تیسری مقداری تسہیل 13 ستمبر 2012 سے شروع کی گئی ہے جس میں ہر ماہ 40 ارب ڈالر چھاپے جائینگے۔[6] یعنی ہر گھنٹے میں ساڑھے پانچ کروڑ۔ یہ مقدار دنیا بھر میں ہر گھنٹے میں بازیاب ہونے والے سونے کی مالیت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہے۔ دنیا کے دوسری کاغذی سکّہ رائج الوقت اس کے علاوہ ہیں۔

یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی ذخائر کی شرح سود میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو ٹیلر کے اصول کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں 5 ٹریلین ڈالر اس عرصہ میں مقداری تسہیل کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے۔[7] اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔

منطتقی بات یہ ہے کہ اگر زبوں حال معیشت کے لیے مقداری تسہیل اتنی ہی کارآمد چیز ہے تو اسے مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں اپنا لیا جاتا؟ صرف برے وقت میں ہی کیوں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ مقداری تسہیل سے ملنے والا سہارا عارضی ہوتا ہے اور بعد میں اس کی قیمت زبردست افراط زر ( مہنگائ ) کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے مرکزی بینکوں کے مالکان حکومتوں کی مدد سے عوام کو نچوڑ رہے ہیں۔[8][9]

  1. "Loose thinking"۔ The Economist۔ 15 October 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2012 
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 31 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2012 
  3. "Global Financial Crisis Timeline: 2007-2012"۔ usfn.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "QE3: What is quantitative easing? And will it help the economy?"۔ بلاگ واشنگٹن پوسٹ 
  5. "Quantitative easing explained" (بزبان انگریزی) 
  6. "the-fed-should-stop-paying-banks-not-to-lend"۔ نیویارک ٹائمز۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. "Bernanke-on-fed-policies"۔ theblaze۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  8. "root cause of poverty" (PDF) (بزبان انگریزی) 
  9. "دنیا کے آٹھ سب سے بڑے مرکزی بینک اور انکا کاغذی سکّہ رائج الوقت چھاپنا"۔ ritholtz۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ